Monday, June 17, 2013

برائے تبصرہ
---------------
بہت پھیلا دیا ہے خود کو میں نے
میں اب خود ہی سمٹنا چاہتا ہوں
کسی نے مجھ سے پو چھا بھی نہیں یہ
میں کن خانوں میں بٹنا چاہتا ہوں
محاذ جنگ پہ کب سے ڈٹا ہوں
میں پسپا ہو کے ہٹنا چاہتا ہوں
نکل آئے گی شاخ نو زمیں سے
میں سوکھا پیڑ کٹنا چاہتا ہوں
کوئی منزل نہیں ہوتی معین
سفر سے میں پلٹنا چاہتا ہوں

ہوں ٹھرے پانیوں میں قید کب سے
سفینہ ہوں الٹنا چاہتا ہوں

ازل سے بر سر پیکار خود سے
صفیں اپنی الٹنا چاہتا ہوں
ہلال نو کا میں بھی منتظر ہوں
میں پورا چاند گھٹنا چاہتا ہوں
سہوں کب تک میں سورج کی تماذت
اگر بادل ہوں چھٹنا چاہتاہوں