غزل۔۔۔۔۔۔۔ایاز رسول نازکی
زلزلے کب یہاں نہیں آتے
لوگ پھر بھی مکاں بناتے ہیں
ہم زمیں پر کھڑے تو ہیں لیکن
روز اک آسماں بناتے ہیں
ماں سے لے کر دعا وں کے دھاگے
دھوپ میں سایباں بناتے ہیں
بجلیاں کوندتی ہیں طایر بھی
ہر گھڑی آشیاں بناتے ہیں
اپنے قدموں کے نقش کا نقشہ
راہ میں کارواں بناتے ہیں
ایک بلبل بہار لاتی ہے
چار گل گلستاں بناتے ہیں
پھر غزل خواں ایاز ہوتے ہیں
دیکھیے کیا سماں بناتے ہیں
No comments:
Post a Comment