غزل
سمندر میں رہنے کا یارا نہ تھا
جزیرے پہ رہنا گوارا نہ تھا
کتابوں میں لکھا ہے کیا کیجیے
میرا قرض اس نے اتارا نہ تھا
بدن پر لپیٹا تھا اس نے بدن
کھلا تھا مگر آشکارا نہ تھا
کرن کوئ پھوٹی تو باطن سے تھی
شب تار میں ایک تارا نہ تھا
تیرے دھیان سے ہم جو غافل ہوءے
کبھی ایک لمحہ گزارا نہ تھا
No comments:
Post a Comment